دروازےکی دہلیزپربیٹھنا
سیاہ جوتےپہننا
کھڑےہوکرشلوارپہننا
بھیڑوں کےدرمیان میں سےگزرنا
لباس کےدامن سےہاتھومنہ صاف کرنا
دنیاسے راہرغبت اختیارکرنا
داڑھی کےبال دانتوںمیں لینا
بائیں ہاتھ سےکھانا
دائیںہاتھ سےطہارت کرنا
ریت کےساتھ کھیلنا
بندرکیساتھ تماشاکرنا
دارویخانہمعنویص١٩٢
امام علی ؑفرماتے ہیں
جو چھوٹے اور معمولی مصائب کو عظیم سمجھتا ہے خدا اس کو بڑی مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے جب تم دیکھو خدا تم پر مسلسل بلا نازل کر رہا ہے تو سمجھو وہ تمہیں بیدار کر رہا ہے.مصیبت پر صبر کرو.جتنا مصیبت پر صبر ہوتا ہے اتنا ہی ثواب ملتا ہے
غرر الحکم ص 796,95
امام علی ؑفرماتے ہیں
.بداخلاق کم عقل ہوتا ہے اس کی زندگی غم و آلام سے گھری رہتی ہے
غررالحکم ص ج1ص455
امام جعفرصؑادق فرماتےہیں
جب انسان کےگناہ زیادہ ہوجاتےہیں اورکوئی عمل خیراسکی تلافی نہیںکرتاتوخدااسےغم میں مبتلاکردیتاہے۔تاکہ اسکاکفارہ ہوجائے
کتابالایمان والکفرج5ص47
حرص
امام علی ؑفرماتے ہیں۔
حرص و لالچ سے بچو کیونکہ حریص کی زندگی ہمیشہ بدبختی و رنج سے ملی ہوتی ہے
غررالحکم ذ ١٣۵
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں
.مومن پر چالیس راتیں ایسی نہیں گزرتی جس سے اسے کسی نہ کسی بات سے غم و رنج پہنچے تا کہ اسے نصحیت حاصل ہو اور خدا کی یاد آئے
تہذیب آل محمد ص 207
نبی ﷺفرماتے ہیں
حرص والا آدمی سات آفتوں میں گرفتار رہتا ہے ایسے افکاو و خیالات میں ہمیشہ رہتا ہے جو اس کے جسم کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ایسی کوشش میں لگا رہتا ہے جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہوتی۔ایسے غم و رنج میں مبتلا رہتا ہے جو موت سے پہلے ختم نہیں ہوتا بلکہ وہ راحت و آرام کے وقت بھی عزاب و شکنجے میں گرفتار رہتا ہے۔خوف و ہراس میں مبتلا رہتا ہے۔۔ایسے خوف میں مبتلا رہتا ہے جو بغیر فائدہ زندگی کو اس کے لیے تلخ بنا دیتا ہے۔
اخلاقی و نفسیاتی مسائل ص١٨٨
امام علی ؑفرماتے ہیں
بدگمان شخص کو تندرستی و آرام نصیب نہیں ہوتا
غررالحکم ص،٨٣۵
امام علیؑ فرماتے ہیں ۔دس چیزیں غم کا باعث بنتی ہیں۔
کھڑے ہو کر شلوار پہننا
بکریوں کے ریوڑ میں سے گزرنا
دانتوں سے داڑھی کے بال چبانا
دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھنا
بائیں ہاتھ سے کھانا
آستین سے منہ پونچھنا
انڈوں کے چھلکوں پر چلنا
دائیں ہاتھ سے کنکریوں سے کھیلنا
ہدایة الشیعہ
نبی ﷺفرماتے ہیں
۔دس چیزیں خوشی کا باعث ہیں
١۔سورہ یسین کا پڑھنا
٢۔ناخن تراشنا
٣۔زیرِ بغل بال صاف کرنا
٤۔غسل کرنا
٥۔گھڑ سواری کرنا
٦۔مسواک کرنا
٧۔اسلامی بھائیوں کی مدد کرنا
٨۔غسل و وضو کے وقت داڑھی میں کنگھی کرنا
٩۔نوافل پڑھنا
١٠۔روزے رکھنا
ہدیة الشیعہ ص
امام تقی ؑفرماتے ہیں
۔جو شخص لوگوں کیساتھ خوش رفتاری چھوڑ دے گا۔رنج و ناگواری اس کے قریب آئے گی
بہارالانوار ج78 ص364
نبی ﷺفرماتے ہیں
ہر غم کا علاج ہے سوا جہنم کے غم کے
بحارالانوار ج71
امام علی نقی فؑرماتے ہیں
خدا نے دنیا کو مصیبتوں کا گھر بنایا ہے اور آخرت کو جزا کا (گھر ) قرار دیا ہے اور دنیا کی مصیبتوں کو آخرت کے ثواب کا زریعہ قرار دیا ہے اور آخرت کے ثواب کو دنیا کی مصیبتوں کا عوض قرار دیا ہے۔
تحف العقول ص ،۴٨١
جنون یعنی پاگل پن کی قسمیں
امام علی ؑفرماتے ہیں۔
غیض و غضب بھی پاگل پن کی ایک قسم ہے۔کیونکہ غصہ کرنے والے کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے اور وہ شرمندہ بھی نہ ہو تو مستقل پاگل ہو جاتا ہے۔
میزان الحکمت ج2ص143
نبی ﷺفرماتے ہیں
(صحیح معنی میں پاگل وہ ہوتا ہے جو اکڑ اکڑ کر چلے،مٹک مٹک کر چلے(تکبر
معانی الاخبار
امام علی ؑفرماتے ہیں
کینہ(دل سے نفرت کرنا) بدترین عیب ہے.اچھائیاں کو روکنے والا اور غصّہ کو بڑکانے والا ہے۔حاسدوں کی عادت ہے،بڑی بیماری ،گھٹیا اخلاق، وبائی مرض ہے ۔زیادہ غصہ کرنے سے کینہ پیدا ہوتا ہے۔مسکر کر ملنے سے کینہ دور ہوتا ہے۔جو دل سے کینہ نکال دے اس کی عقل و دل سکون پاتا ہے
میزان الحکمت ج2 ص 223
امام علی ؑفرماتے ہیں
مومن کی اصل خوشی اطاعت خدا میں ہے اور مومن کا اصل غم گناہ کرنے پر ہے ۔خوشی صرف نرمی کیساتھ لوگوں کے ساتھ تعاون اور کام کرنے سے حاصل ہوتی ہے
میزان الحکمت ج3 ص104
امام علی ؑفرماتے ہیں
رنج و غم آدھا بڑھاپا ہے۔
میزان الحکمت ج2ص206
حضرت عیسٰؑی فرماتے ہیں
جس کے غم زیادہ ہوتے ہیں اس کا جسم بیمار ہو جاتا ہے
بحارالانوار ج 72
امام جعفر صؑادق فرماتے ہیں
دنیا سے بے حد محبت رنج کا سبب ہے اور دنیا سے بے نیازی قلب و جسم کی راحت ہے
بحارالانوار ج78
امام جعفر صؑادق فرماتے ہیں۔
چار چیزیں باعث غم ہیں۔گھر کی دہلیز پر بیٹھنا، بکریاں کے ریوڑ سے گزرنا،کھڑے ہو کر کپڑے پہننا،عمامہ سے منہ و ہاتھ پونچھنا
الخصال ص122
رسول ﷺفرماتے ہیں جو لوگوں کی طرف (لالچ) سے دیکھتا ہے اس کا غم دائمی ہو جاتا ہے
بحار الانوار ج 73
امام علی ؑفرماتے ہیں
میں نے حاسد سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں دیکھا جو مظلوم کی طرح ہمیشہ حیران پریشان و غمگین رہتا ہےبے صبری اور رنج و غم کے اظہار سے بچو ۔اس سے امیدیں کٹ جاتی ہیں۔عمل کمزور ہو جاتا ہے۔رنج کے سوا کچھ نہیں ملت
میزان الحکمت ج2 ص 207